سٹاک ہوم سینٹر فارفریڈم کا فتح اللہ گولن سے انٹریو

سٹاک ہوم سینٹر فارفریڈم (ایس سی ایف) نے فتح اللہ گولن سے ان واقعات کے متعلق سوالات کیے جن کے نتیجے میں 150,000 لوگوں کو برطرف کیا گیا اور اتنے ہی لوگ حراست میں لیے گئے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک دہشت گرد تنظیم کی رکنیت کے الزام میں 50,000 سے زائد لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

س: آپ کو بغاوت کی کوشش کے متعلق کب پتہ چلا؟ آپ کا اس پر پہلا رد عمل کیا تھا؟
ج: مجھے بغاوت کے متعلق خبر میڈیا سے ملی ۔ یہاں موجود میرے چند دوستوں نے مجھے اس کے متعلق بتایا۔ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس نے آج تک ترکی میں ہونے والی تمام بغاوتوں کو دیکھا اور ملک کو ان بغاوتوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو ذاتی طورپر محسوس کیا۔ میرا پہلا رد عمل یہ تھا: " اے اللہ ہماری قوم کی حفاظت فرما" ۔ میں وہ شخص ہوں جس نے یہ کہنے کی جرات کی: " جمہوریت سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔" (662) اور یہ اس وقت ہوا جب ترکی میں چند لوگ جمہوریت کو لادینیت سمجھتے تھے۔ ذاتی طورپر بغاوتوں کے ہاتھوں نقصان اٹھا کر اور عوام کو اس کی بھاری قیمت چکاتے دیکھنے کے بعد میں اپنے ملک کے متعلق فکر مند تھا اور میں نے اس کاقلع قمع ہونے سے پہلے ہی مذمت کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔

س: کیا آپ 15جولائی سے قبل پریشان تھے کہ بغاوت کی کوئی کوشش کی جاسکتی ہے؟
ج: ترک فوج کی بغاوت کی تیاروں کی خبر ہر طرف گرم تھی۔ایک صحافی دوست نے مجھے بتایا تھا کہ انقرہ میں موجود صحافیوں میں بھی چہ مہ گویئاں ہو رہی ہیں۔ میں سن رہا تھا کہ چیف آف جنرل سٹاف ہلوسی آکار ایک طویل عرصے سے بغاوت کی تیاروں میں مصروف تھا اور اس کے لیے سنجیدہ انداز میں کام کررہا تھا۔ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو ان افواہوں کے باعث سوچ رہے تھے کہ چین آف کمانڈ کے اندر ہی بغاوت برپا ہونے والی ہے۔ اللہ ہی حقیقت جانتا ہے مگر حذمت تحریک کے خاتمے کے لیے ایک خونی بغاوت برپا کرنا یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔

س: بین الاقوامی میڈیا سے ایک انٹرویو میںآپ نے اس بغاوت کو ’’ہالی ووڈ ‘‘ کے مناظر سے تشبیہ دی تھی۔ وہ کیا وجوہات اور حقائق ہیں جو آپ کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ آپ کے خیال میں یہ منظر نامہ کس نے لکھا؟ 15 جولائی کے پیچھے کون ہے؟
ج: میں اب تک ترکی میں تین بغاوتیں دیکھ چکا ہوں۔ میڈیا میں حالیہ ادوار میں یرگینوکان اور بیلوز کیسوں کے حصہ کے طورپر بغاوت کی کوششوں کا ذکر آچکا ہے۔ دوسری جانب بغاوت کی یہ کوشش ایک وحشیانہ ڈرامہ تھا جو کامیاب بغاوتوں یا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے والی بغاوتوں سے قطعاً مختلف تھا اور حتیٰ کہ ایک بچہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک منظر نامہ تھا۔ اس کھیل کے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔شاید یہ حصہ ایسا بھیانک معاملہ ہے جس کے لیے طویل اور خود مختار تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔اس کی تفصیلات میں جانے کے لیے گھنٹوں درکار ہوں گے لیکن آپ اس کے ابتدائی لمحات ہی سے ایسی بیسیوں چیزوں کا تذکرہ کرسکتے ہیں جیسے مٹھی بھر سپاہیوں کی جانب سے پل کے صرف ایک حصے کو بند کرنا اور وہ بھی گرمیوں کی ایک ایسی شام میں جب سب لوگ باہر ہوتے ہیں۔ بعض ریٹائرڈ جرنیلوں نے بعد میں کہا یہ بغاوت ’’ناکامی کا منصوبہ‘‘ لیے ہوئے تھی۔ حتیٰ کہ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے بھی ان واقعات کو کمپیوٹر گیم سے تشبیہ دی۔
یقیناًمیں اس معاملے کو ایک منظر نامہ یا ڈرامہ کہہ کر اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کی قیمت ترکی میں دیگر تمام کامیاب بغاوتوں سے بھی بڑھ کر چکانی پڑی۔ ہمارے 249لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 50ہزار معصوم افراد جیلوں میں بند ہیں۔ ہر روز ظلم و ستم اور برے سلوک کی نئی داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں۔اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔ ہزاروں کمپنیوں کو ضبط کرلیا گیا ہے۔ ترکی کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتار دیا گیا ہے۔ قوم منقسم ہے اور لوگوں میں نفرت اور انتقام کے وہ بیج بوئے جارہے ہیں جنہیں جڑ سے اکھاڑنا بہت مشکل ہے۔ ایگزیکٹو صدارت کے نام پر آمریت مسلط کی جارہی ہے۔
حذمت تحریک پر ہر قسم کے دباؤ کے باوجود قانونی ذرائع سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکنے کے بعد اردگان نے یہ ہولناک منصوبہ بنایا ۔ وہ چند پولیس افسران اور ایک پراسیکیوٹر کے ذریعے پہلے بھی دنیا کے سامنے حذمت تحریک کو دہشت گرد تنظیم ثابت کرنے کے ارادے کا کھلے عام اظہار کرچکا ہے۔ لیکن اس کے لیے قانونی طریقے سے ایسا کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ حذمت کے پڑھے لکھے لوگوں نے کبھی کسی چیونٹی پر بھی پاؤں نہیں رکھا، نہ کبھی سڑکوں پر آئے اور نہ ہی کسی بھی چیز پر ایک بھی پتھر پھینکا۔ اس لیے اس نے ایسا ظالمانہ منصوبہ ترتیب دیاتاکہ حذمت تحریک کے لوگوں کو مسلح ظاہر کیا جاسکے نتیجتاً اس نے نہ صرف اپنی آمریت کے لیے راستہ ہموار کرلیابلکہ حذمت کے خلاف ایک ایسی انتقامی کارروائی کا آغازکردیا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک مرتبہ پھر وہ بین الااقوامی برادری کو تو قائل نہ کرسکا مگر درجنوں اخبارات اور ٹی وی کی ایک جیسا راگ الاپتی نشریات کے باعث ترک عوام کو حذمت کے دشمنوں میں بدل دیا جیسے مسئلہ صرف حذمت مخالف احساسات تک محدود ہو۔ ملک کا مستقبل تباہ کردیا گیا ہے۔ ریاست کو کھوکھلاکردیا گیا ہے۔ سینکڑوں ہزار وں متاثرین ہیں۔ ہزاروں تعلیم یافتہ اور ذہین افراد جو اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں یا تو جیلوں میں ہیں یا انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ 15جولائی اردگان اور اس کے حواریوں کی جانبترتیب دیا جانے والا ایک ظالمانہ اور بے رحمانہ منظر نامہ تھا۔

س: ہمیشہ سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ حذمت تحریک ریاست اور اس کے اداروں میں سرایت کرچکی ہے اور عدلیہ اور فوج میں بھی سرایت کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔ کیا یہ دعوے درست ہیں؟ کیا حذمت ایسا کوئی ارادہ رکھتی ہے؟
ج: میں سرایت کرجانے اور اثر انداز ہونے سے گھٹیا الزامات کو شروع ہی سے مکمل طورپر رد کرتا آرہا ہوں۔ حذمت تحریک رضاکارانہ کام اور تعلیم پر زور دیتی رہی ہے اور لوگوں کی اچھے، تعلیم یافتہ ، بااخلاق، علم کے حامل ، جدید ، وفادار اور ایثار پسند ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہمیشہ ہی سے ایسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور میں ہر مرتبہ بہت عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ عوام کا اپنے بچوں کو اپنے ہی ملک کے اداروں میں بھیجا جانا ان میں سرایت کرنا نہیں بلکہ ان کا فطری حق ہے۔
ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو میرے الفاظ کو قابل قدر سمجھتے ہیں اور جو اپنے بچوں کو مختلف شعبوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں بھی بھیجتے ہیں ۔ ان مقامات پر ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو حذمت کے ہمدرد ہوں اور انہوں نے حذمت کی محبت، امن اور عالمگیریت کی روایات کو اپنا لیا ہو اور یہ کوئی ایسی چیزنہیں جو غلط ہو لیکن ہمیشہ سے کچھ لوگ ایسے بھی رہے ہیں ان لوگوں کی ان مقامات پر موجودگی سے نالاں تھے۔ حذمت کے خلاف بنایا جانے والا منصوبہ اسی پریشانی کا عکاس ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ اپنی ملازمتوں سے برخاست کیے جانے والے پولیس افسران، ججوں، پراسیکیوٹرز یا سپاہیوں میں سے کتنے حذمت سے وابستہ تھے اوراس کا کوئی ریکارڈ یا رجسٹر بھی موجود نہیں۔ حذمت کلیتاً رضاکاروں کی ایک تحریک ہے۔ میں پہلے کہی ہوئی ایک بات ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ اگر بغاوت کے ذمہ داران میں سے کوئی بھی ایسا ہو جوحذمت کا ہمدرد ہو تو اس نے حذمت کے بنیادی اصولوں کو دھوکہ دیا ہے۔

س: آپ نے یہ تجویز دی ہے کہ ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔ آپ کی توقع کیا تھی ؟ مختلف ممالک کی جانب سے بعد میں انٹیلی جنس رپورٹس شائع ہوئیں۔ کیا وہ ایک بین الااقوامی کمیشن کے لیے آپ کی توقعات پر پورے اترے؟

ج: نہیں وہ (شائع شدہ رپورٹیں) نہیں(میری توقعات پر پوری) اتریں۔ میں نے ایسی تجویز (ایک بین الااقوامی تحقیقاتی کمیشن) بغاوت کے ڈرامے کے فوراً بعد دی تھی۔ میں اب بھی اپنی تجویز پر اصرار کرتا ہوں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، نیٹو یا دیگر کوئی بھی ادارہ اس کی تحقیقات کے لیے خود مختار کمیشن قائم کرے۔ میں اس کمیشن کے سامنے بیان دینے کو تیار ہوں ۔اس کا فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو میں اس کا احترام کروں گا۔
لیکن اردوگان اور اے کے پارٹی اس تجویز سے متفق نہیں۔ ترک پارلیمان میں اس معاملے پر سیشن کے لیے مطالبات کو بھی انہوں نے اپنے ووٹوں سے مسترد کردیا۔ بین الااقوامی کمیشن کی بات تو جانے ہی دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دباؤ کے باعث مہینوں بعد قائم کیے جانے والے نام نہاد پارلیمانی کمیشن کے ساتھ کیا ہوا۔ اس ڈرامہ کے مرکزی کرداروں میں سے کسی نے بھی اس کے سامنے پیش ہونے اور عوامی پارلیمان کے سامنے حساب دینے کی زحمت نہیں کی۔
امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے طاقتور انٹیلی جنس سروسز کے حامل ممالک کی وہ رپورٹیں بھی کافی نہیں جو بغاوت میں حذمت تحریک کوشامل کرنے کے لیے ثبوتوں کے ناکافی ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ حذمت تحریک کو ان الزامات پر بری الذمہ قرار دیتی ہیں مگر ترکی پر ان کا کوئی مثبت اثر نہ ہوا۔
میں اس خیال کا حامل ہوں کہ اس معاملے کو ایک کمیشن مزید سنجیدگی سے دیکھے جو تمام بین الااقوامی برادری کو اکٹھا کرے۔ میں ان ہزاروں لوگوں کو بری کرانے کے لیے اس سب کا خواہاں ہوں جن پر اس جھوٹ کی بنیاد پر ترکی میں ظلم کیا گیا ہے۔ اگر آپ دیکھیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران جھوٹ کی بنیاد پر ترکی میں کیا ہوا تو ایک بین الااقوامی کمیشن کے قیام کے لیے میرے اصرار کی اہمیت واضح ہو جائے گی۔

س: ایسے منصوبے بھی سامنے آئے جہاں اے کے پارٹی کے وزراء نے امریکی صدر ٹرمپ کے سابق سیکورٹی ایڈوائزر فلن کے ساتھ آپ کو اغواء کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ آپ اس کے متعلق کیا سمجھتے ہیں۔ کیا آپ اپنے خلاف دیگر کوششوں سے آگاہ ہیں؟
ج: جب میں نے اس کے متعلق سنا تو مجھے اپنے ملک کے متعلق بہت دکھ ہوا۔ مجھے جمہوریہ ترکی کے لیے دکھ ہوا جو ایسا ملک ہے جو تاریخی روایات کا امین ہے۔ جو کسی نہ کسی طرح جمہوریت کی راہ پر گامزن تھا اور اب ایک ہجوم کی مانند ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت، قانون کی حکمرانی، حقوق انسانی اور آزادی کے اعتبار سے غیر ترقی یافتہ ممالک میں حذمت کے لوگوں کی جرائم پیشہ گروہوں کے سے انداز میں اغوا کے واقعات موجود ہیں اور جنہیں قانون کی حکمرانی، حقوق انسانی اور آزادی سے کسی بھی صورت میں منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایسی ہی کوشش یہاں (امریکہ میں )بھی کر سکتے تھے مگر یہ ایسا ملک ہے جہاں تمام اداروں میں جمہوریت کام کررہی ہے اور قانون کی حکمرانی اور عالمگیر روایات ہر چیز سے بالاتر ہیں۔ ان کے لیے یہاں ایسا کرنا ناممکن ہے ۔ یہاں کے خفیہ ادارے ہمیں پہلے بھی قاتلانہ حملوں کی کوشش سے آگاہ کرچکے ہیں۔