حیاتِ نو

حیاتِ نو

جہاں انسان کی خوشی اور کامرانی معاشرے کے پُرامن اور قابل بھروسا ہونے پر موقوف ہوتی ہے، وہیں معاشرے کی بہبود اور تحفظ ایثار پسند اور مخلص افراد پر منحصرہوتا ہے۔ اناپرست اورغیرصحت مند جذبات سے مغلوب افرد صحت مند معاشرے کو تشکیل نہیں دے سکتے اوراگرمعاشرہ صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کو اپنے دامن میں پناہ دے سکتا ہے ا ور نہ ہی سعادت و مسرت کے حصول کو یقینی بنا سکتا ہے۔ افراد کے تانے بانے سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے ا ور پھرمعاشرہ اپنے افراد کوزیادہ سے زیادہ روحانی صلاحیتیوں کے حصول میں مدد فراہم کرکے ان کا خیال رکھتا ہے۔

صرف ایسےعمرانی معاہدے ہی کی بدولت معاشرہ معتدل اورامید افزا بن سکتا ہے اوراس کے افراد عزت و احترام سے جی سکتے ہیں۔ اس طرح کا معاشرہ نوجوانوں کوسیکھنے اور اہل علم کواپنے لطیف ترین الہامات کا دوسروں سے تبادلہ کرنےکے مناسب ترین مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ ایےش معاشرے میں کتب خانے طالبانِ علم سے کاچا کھچ بھرے ہوتے ہیں،حصول علم اس کے افراد کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور ان کے افکار دعاؤں میں منعکس ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں وہ سرزمین خیروبھلائی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور اس کے باشندے سعادت ومسرت سے نہال ہوجاتے ہیں۔

اگرمعاشرہ عناد پرستی اور مستقل انطالط کے درمیان گھرا ہوتو فردعزت و احترام سے زندگی نہیں گزار سکتا، تعلیم وتعلم کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اہل ایمان اپنے پروردگارکی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کوپورا نہیں کرپاتے۔ خاص طور پر اگراس معاشرے کے افراد نامعلوم دشمنوں کے درمیان رہ رہے ہوں تووہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے۔ وہ ایک ہی جگہ میں ان دشمنوں کے پہلو بہ پہلو رہتے ہیں اوران کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، لیکن وہ فرق کا احساس نہیں کرپاتے۔

جی ہاں ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ دشمن سرطان کے خلیوں کی مانند ہمارے معاشرے کے رگ وریشے میں سرایت کر چکا ہے اورہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے کوتباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس معاشرے کے ا فراد اس قدربے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے، لیکن انہیں اس کا احساس تک نہیں ۔ اگر کسی معاشرے کی بصیرت پرپردہ پڑ جائے اوراس کے دشمن عیار اور بے رحم ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن اندرآچکا ہے اورقلعہ شدید خطرے میں ہے۔

حملہ آورگھٹیا اورفرسودہ خیالات کو جواہرات بنا کر ان کی تشہیرو ترویج کرتے ہیں، بھانڈ اورکم ذات لوگ نامی گرامی لوگوں کا بھیس بھرتے ہیں اورکچھ تنگ ذہن اوربدکردار لوگوں کی انبیائے کرام جیسی عزت وتکریم کی جاتی ہے اوراسی دوران قومی ایثار پسندی کا جذبہ شمالی برفانی تودوں کے ریلے میں بہ جاتا ہے۔

اگر آپ مختلف معاشرتی طبقوں اور ملکی اداروں کا جائزہ لیں تو آ پ کواپنی اس روح کا کہیں نام و نشان نہ ملے گا۔آپ کو علم کا شوق اورسچائی کی محبت نظر آئے گی اورنہ ہی خلوص، پاکیزگی، اخلاقیات اور اقدار ملیں گی۔ قوم کا جسم کرم خوردہ، علم شعبدہ بازوں کا کھیل اورتعلیمی ادارے تماشہ گاہیں بن چکی ہیں۔ سچائی کی تلاش کے نام پر نئی نسلوں کوبے دینی اوربے راہ روی کی تعلیم دی جارہی ہے۔دل رحم سے خالی ، جذبات پست اوررحم سے عاری اورآنکھیں پختگی اوربصیرت سے محروم ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے عوام معاشرے کو مستحکم کرنے والی تمام روحانی واخلاقی بنیادوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں اورجسمانی لذتوں کے حصول کوترویج دی جارہی ہے۔

آج کے دور میں کموڈٹی (چیزیں اوران کی محبت ) جونوجوانوں کے جذبات وخیالات کوتباہ کرنے اور ان کے راستے میں حائل ہونے والا ناسور ہے، عوام کا نصب العین بن چکا ہے۔انسانیت کے اصل جوہر سے ہم آہنگ نہ کی جانے والی ٹیکنالوجی طاعون کی وبا بن چکی ہے۔ یہ وبا معاشرے کی بےلوث خدمت کے جذبے کا خون کرکے ہمیں پوری طرح اپنے شکنجے میں کس چکی ہے اوربلند مقاصد کے پھلنے پھولنے کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر لوگوں کواپنی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اپنے بنددلوں اوربے لوچ روحوں کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جن لوگوں کی مستقبل پر نظرہے اورجو مستقبل کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کا عہد کرتے ہیں انہیں ہرقدم پراپنے کام کی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ صرف اسی صورت میں وہ اپنے فرائض کی ادئیگی میں حقیقی خلوص کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ ان مخلص لوگوں کا نصب العین اور افکار زندگی کے اتار چڑھاؤ سے مربوط نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے برعکس حالات اپنے آپ کوان کے خیالات کے مطابق ڈھالیں گے۔ وہ غیر ذمہ داری اور حقیقی محبت سے محرومی کی بنا پر صرف دنیوی لذتوں کی خاطر گزاری جانے والی زندگی کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اپنی موجودگی کا ثبوت دیں گے۔ جومعاشرہ ماہرین واساتذہ کی رہنمائی میں اپنے آپ کواس مقام تک لے آتا ہے وہ اپنی تجدید کے لیے تیار ہوتا ہے اور اس طرح اس کے احیائے نو کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اگرہم پُر امید دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انسانیت کے خالص جوہر اور رحمت خداوندی پر ہمارے مضبوط اعتماد ویقین کی بدولت ہمارے آفاق پر اس قسم کی حیاتِ نو کے آثار ظاہر ہوچکے ہیں۔